غموں سے یوں وہ فرار اختیار کرتا تھا
فضا میں اڑتے پرندے شمار کرتا تھا
بیان کرتا تھا دریا کے پار کے قصے
یہ اور بات وہ دریا نہ پار کرتا تھا
بچھڑ کے ایک ہی بستی میں دونوں زندہ ہیں
میں اس سے عشق تو وہ مجھ سے پیار کرتا تھا
یوں ہی تھا شہر کی شخصیتوں کو رنج اس سے
کہ وہ ضدیں بھی بڑی پر وقار کرتا تھا
کل اپنی جان کو دن میں بچا نہیں پایا
وہ آدمی کہ جو آہٹ پہ وار کرتا تھا
وہ جس کے صحن میں کوئی گلاب کھل نہ سکا
تمام شہر کے بچوں سے پیار کرتا تھا
صداقتیں تھیں مری بندگی میں جب اظہرؔ
حفاظتیں مری پروردگار کرتا تھا
غزل
غموں سے یوں وہ فرار اختیار کرتا تھا
اظہر عنایتی