غم نہیں ناز حسن ہے حسن کے ناز اٹھائے جا
اے دل مبتلائے غم غم میں بھی مسکرائے جا
حسن ہے عشق آفریں حسن پہ دل لٹائے جا
عشق کو درد دل بنا درد کو دل بنائے جا
جلوہ بہ جلوہ گر نہیں پردہ بہ پردہ آئے جا
دل میں مرے سمائے جا روح میں جگمگائے جا
شورش کائنات میں غم کو خوشی بنائے جا
ہنس مرے آنسوؤں میں تو آہ میں مسکرائے جا
تاروں میں جگمگائے جا چاند میں مسکرائے جا
دور سے کوئی نغمۂ روح فزا سنائے جا
ضبط بقدر ظرف ہے ظرف بقدر شوق ہے
تو ابھی سامنے نہ آ شوق ابھی بڑھائے جا
باہمہ ترک رسم و راہ کچھ تو ہو التفات بھی
تو مجھے بھول جا مگر یاد مجھے تو آئے جا
حسن سے بڑھ کے بد گماں عشق ہے اپنے آپ سے
میں ابھی مطمئن نہیں تو مجھے آزمائے جا
صرف جبین شوق ہو اور کسی کا آستاں
سجدے بھی درمیاں نہ ہوں سجدوں کو بھی مٹائے جا
بزم نشاط کائنات مجھ پہ ہے خندہ زن ہنوز
خلوت غم میں تو ابھی اور مجھے رلائے جا
اب نہ وہ بسملؔ اور نہ تو اب نہ وہ دل نہ آرزو
اب تو خدا کے واسطے یاد اسے نہ آئے جا
غزل
غم نہیں ناز حسن ہے حسن کے ناز اٹھائے جا
بسمل سعیدی