غم کے بادل پھر بھی چھائے رہ گئے
آنکھ سے دریا کے دریا بہہ گئے
خوف عقبیٰ اور اس دنیا کے بعد
وہ بھی سہہ لیں گے جو یہ غم سہہ گئے
کس نے دیکھا ہے جمال روئے دوست
سب نقابوں میں الجھ کر رہ گئے
مختصر تھی داستان عرض شوق
بجھ کے کچھ تارے مژہ پر رہ گئے
زیست ہے اک شام افسانے کا نام
اپنی اپنی داستاں سب کہہ گئے
تب کہیں جا کر ملی سطح سکوں
ڈوب کر جب غم میں تہہ در تہہ گئے
وار کر کے زیست بھاگی اور ہم
آستیں اپنی چڑھاتے رہ گئے
چند شیطاں بند کر کے خوش ہیں یوں
جیسے باہر سب فرشتے رہ گئے
اشک بن پائے نہ غم کے ترجماں
یہ نمائش ہی میں اپنی رہ گئے
زندگی سے لڑ نہ پایا جوش دل
پر بہت تولے مگر رہ رہ گئے
اشک تھے جب تک فروزاں غم نہ تھا
اب اندھیرے میں اکیلے رہ گئے
جیبیں سب یاروں نے بھر لیں بزم میں
ایک ملاؔ تھے جو یوں ہی رہ گئے
غزل
غم کے بادل پھر بھی چھائے رہ گئے
آنند نرائن ملا