EN हिंदी
غم کا دریا سوکھ نہ جائے اس کی روانی کم نہ پڑے | شیح شیری
gham ka dariya sukh na jae uski rawani kam na paDe

غزل

غم کا دریا سوکھ نہ جائے اس کی روانی کم نہ پڑے

ضیا ضمیر

;

غم کا دریا سوکھ نہ جائے اس کی روانی کم نہ پڑے
خون جگر بھی شامل کر لوں آنکھ میں پانی کم نہ پڑے

اس کے بدن کی خوشبو کا کچھ توڑ نکالو آج کی رات
اور کوئی خوشبو لے آؤ رات کی رانی کم نہ پڑے

سال‌‌ دو سال کی بات نہیں ہے عمر بہت درکار ہے ہاں
سوچ رہا ہوں عشق کی خاطر عہد جوانی کم پڑے

آئینے کا دل نہیں ٹوٹے اس کا بھرم آباد رہے
چہرے پر کچھ اور بڑھاؤ یہ حیرانی کم نہ پڑے

کار جہاں میں اپنی وسعت سے یہ خود حیران سا ہے
آدم زاد کو میرے مولا عالم فانی کم نہ پڑے

درد کے سارے ہی قصوں کی یاد دہانی کر لینا
ہجر کی رات بہت لمبی ہے ایک کہانی کم نہ پڑے

راز بہت سے ایسے بھی ہیں جو اس کو معلوم نہیں
میرے یار کی صحبت تجھ کو دشمن جانی کم نہ پڑے