EN हिंदी
غم اتنے اپنے دامن دل سے لپٹ گئے | شیح شیری
gham itne apne daman-e-dil se lipaT gae

غزل

غم اتنے اپنے دامن دل سے لپٹ گئے

ظفر انصاری ظفر

;

غم اتنے اپنے دامن دل سے لپٹ گئے
تجھ سے بچھڑ کے ہم کئی قسطوں میں بٹ گئے

کیوں یہ دیار میرے لیے تنگ سا لگا
کیا بات ہے کہ دامن صحرا سمٹ گئے

اس سے کہیں بھی نام تمہارا نہیں ملا
ہم ہر ورق کتاب وفا کے پلٹ گئے

تم غیر سے نبھاؤ وفا ہم کو بھول کر
جاؤ تمہاری راہ سے ہم آج ہٹ گئے

اب جھیلنا پڑے گا عذاب گناہ عشق
اس بت نما خدا کے ارادے پلٹ گئے

جب سے متاع درد ملی مجھ کو اے ظفرؔ
قد میرے سامنے مرے یاروں کے گھٹ گئے