غم جاناں سے رنگیں اور کوئی غم نہیں ہوتا
کہ اس کے درد میں احساس بیش و کم نہیں ہوتا
وہ ہیں کم ظرف جن کا شور نالہ کم نہیں ہوتا
چمن میں پھول بھی تو ہیں انہیں کیا غم نہیں ہوتا
کمال ضبط گریہ عظمت شان محبت ہے
چھلک جائے جو پیمانہ وہ جام جم نہیں ہوتا
یہاں تک دل کو عادت ہو گئی ہے بے قراری کی
سکون زندگی میں بھی تڑپنا کم نہیں ہوتا
تمہاری یاد ہی کے ساتھ دھڑکن بڑھ گئی دل کی
تصور سے مزاج حسن تو برہم نہیں ہوتا
خزاں کی الجھنیں گلچیں کا کھٹکا ہے مگر پھر بھی
کلی کا باغ میں لطف تبسم کم نہیں ہوتا
کچھ ایسی بات ہے صیاد جو ہم مسکراتے ہیں
نہیں تو آشیاں لٹنے کا کس کو غم نہیں ہوتا
نہ جانے کیوں تمہارے غم کو دنیا غم سمجھتی ہے
مسرت سے تو اس کا مرتبہ کچھ کم نہیں ہوتا
فگارؔ اس گلشن ہستی کا عبرت خیز عالم ہے
کہ شبنم رو رہی ہے گل کا ہنسنا کم نہیں ہوتا
غزل
غم جاناں سے رنگیں اور کوئی غم نہیں ہوتا
فگار اناوی