غم دنیا نہیں پھر کون سا غم ہے ہم کو
فکر و اندیشۂ عقبیٰ سے بھی رم ہے ہم کو
دہن غنچہ سے پیغام وفا سنتے ہیں
غازۂ عارض صد ہست عدم ہے ہم کو
قول یہ سچ ہے کہ خود کردہ کا درماں کیا ہے
داور حشر پہ ناحق کا بھرم ہے ہم کو
اگلے لقموں میں نہیں قند مکرر کا مزا
سخت بے لطف حیات پیہم ہے ہم کو
زیست کی کشمکش اور مرگ کی قربت کا الم
آمد و رفت نفس تیغ دو دم ہے ہم کو
بیٹھے بیٹھے جو کٹے پھر تگ و دو سے حاصل
ہر نفس جادۂ ہستی میں قدم ہے ہم کو
ذرہ ذرہ میں نظر آتی ہے تصویر صنم
سر بسر رو کش صد دیر و حرم ہے ہم کو
بار غم بار سے احساں کے بدل جاتا ہے
طوق گردن کشش کاف کرم ہے ہم کو
حال دل لکھتے نہ لوگوں کی زباں میں پڑتے
وجہ انگشت نمائی یہ قلم ہے ہم کو
آنکھ کیا ڈالیے اس گل پہ جو کمھلا جائے
کیفیؔ اپنا ہی یہ دل باغ ارم ہے ہم کو
غزل
غم دنیا نہیں پھر کون سا غم ہے ہم کو
دتا تریہ کیفی