غم آفاق ہے رسوا غم دلبر بن کے
تہمت عشق لگی ہم پہ سخن ور بن کے
وہ نہیں موت سہی موت نہیں نیند سہی
کوئی آ جائے شب غم کا مقدر بن کے
راہبر تم کو بنایا ہمیں معلوم نہ تھا
راہرو راہ بھٹک جاتے ہیں رہبر بن کے
اس زیاں خانے میں اک قطرے پہ کیا کیا گزری
کبھی آنسو کبھی شبنم کبھی گوہر بن کے
موت کی نیند کے ماتوں پہ نہ کیوں رشک آئے
جاگنا ہے انہیں ہنگامۂ محشر بن کے
یاد پھر آ گئیں بھولی ہوئی باتیں کیا کیا
پھر ملاقات ہوئی ایسے مقدر بن کے
آہ یہ عقدۂ غم بزم طرب میں بھی حفیظؔ
بارہا آنکھ چھلک جاتی ہے ساغر بن کے
غزل
غم آفاق ہے رسوا غم دلبر بن کے
حفیظ ہوشیارپوری