گلی کوچوں میں جب سب جل بجھا آہستہ آہستہ
گھروں سے کچھ دھواں اٹھتا رہا آہستہ آہستہ
کئی بے چینیوں کی شدت اظہار کی خاطر
مجھے ہر لفظ پر رکنا پڑا آہستہ آہستہ
عدم ہستی فنا اور پھر بقا اک دائرہ سا ہے
سمجھ میں آ ہی جائے گا خدا آہستہ آہستہ
مسیحائی کی صبحوں صبر کی راتوں کے آنگن میں
لہو بہتا رہا بہتا رہا آہستہ آہستہ
فصیل شہر بنتے ہی چلے آئے علم اس کے
مری پہچان کا پرچم کھلا آہستہ آہستہ
اطاعت میں بھی تحریم انا کی فکر لازم ہے
سر تسلیم بھی اپنا جھکا آہستہ آہستہ
منیرؔ اہل تحمل کا جنوں سے واسطہ کیا ہے
محبت جرعہ جرعہ اور وفا آہستہ آہستہ

غزل
گلی کوچوں میں جب سب جل بجھا آہستہ آہستہ
سید منیر