EN हिंदी
غیروں کے ساتھ گاتے جاتے ہو | شیح شیری
ghairon ke sath gate jate ho

غزل

غیروں کے ساتھ گاتے جاتے ہو

مرزا اظفری

;

غیروں کے ساتھ گاتے جاتے ہو
چٹکیوں میں ہمیں اڑاتے ہو

کون استاد مل گیا کامل
کس سے ضربیں یہ سیکھ آتے ہو

نقش کس کا اپر اٹھا منہ پر
اب تو نقشہ نیا بٹھاتے ہو

کبھو سو رہتے ہو دوپٹہ تان
کبھی اک تان مار جاتے ہو

کبھو کرتے ہو جھانجھ آ ہم سے
کبھی جھانجھ اور دف بجاتے ہو

کبھو لڑنے کا تار ہے اور گاہ
تار طبنور پر چڑھاتے ہو

تالی دے تھپڑی مار اور لڑ بھڑ
تھاپ مردنگ پر لگاتے ہو

ہوتی ہے جب کہیں سے دوت دپک
کیوں ہمیں آ کے کھڑکھڑاتے ہو

وعدہ ٹلتا ہے جب تو راہ میں دیکھ
بتی دے مجھ کو گڑگڑاتے ہو

اظفریؔ دوست کو رلا پیارے
دشمنوں کے تئیں ہنساتے ہو