گدا دست اہل کرم دیکھتے ہیں
ہم اپنا ہی دم اور قدم دیکھتے ہیں
نہ دیکھا جو کچھ جام میں جم نے اپنے
سو یک قطرۂ مے میں ہم دیکھتے ہیں
یہ رنجش میں ہم کو ہے بے اختیاری
تجھے تیری کھا کر قسم دیکھتے ہیں
غرض کفر سے کچھ نہ دیں سے ہے مطلب
تماشائے دیر و حرم دیکھتے ہیں
حباب لب جو ہیں اے باغباں ہم
چمن کو ترے کوئی دم دیکھتے ہیں
نوشتے کو میرے مٹاتے ہیں رو رو
ملائک جو لوح و قلم دیکھتے ہیں
مٹا جائے ہے حرف حرف آنسوؤں سے
جو نامہ اسے کر رقم دیکھتے ہیں
اکڑ سے نہیں کام سنبل کی ہم کو
کسی زلف کا پیچ و خم دیکھتے ہیں
خدا دشمنوں کو نہ وہ کچھ دکھائے
جو کچھ دوست سے اپنے ہم دیکھتے ہیں
ستم سے کیا تو نے ہم کو جو خوگر
کرم سے ترے ہم ستم دیکھتے ہیں
مگر تجھ سے رنجیدہ خاطر ہے سوداؔ
اسے تیرے کوچے میں کم دیکھتے ہیں
غزل
گدا دست اہل کرم دیکھتے ہیں
محمد رفیع سودا