فغاں کے ساتھ ترے راحت قرار چلے
نوا گران وفا ہمتوں کو ہار چلے
یہ کیا کہ پھول کھلے اور زخم رسنے لگے
ملے سکوں بھی اگر باد نوبہار چلے
یہ ملتفت سی نگاہیں فروغ جام کے ساتھ
چلے یہ دور چلے اور بار بار چلے
ہزار برہمیٔ زلف یار بھی دیکھی
تجھے تو کاکل گیتی مگر سنوار چلے
خیال و علم کا بھی مول تول ہوتا ہے
ہمارے عہد میں کیا کیا نہ کاروبار چلے
حیات ساتھ چلی کائنات ساتھ چلی
عجیب شان سے کچھ لوگ سوئے دار چلے
وہی تو تھے کبھی چشم و چراغ محفل غم
جو بے قرار سے اٹھے جو اشک بار چلے
تھکے تھکے سے قدم اور طویل راہ حیات
مسافران عدم بوجھ سا اتار چلے
زمین فیض ستارے لٹا رہی ہے نظرؔ
یہ کیا کہ آپ یہاں سے بھی سوگوار چلے
غزل
فغاں کے ساتھ ترے راحت قرار چلے
نظر حیدرآبادی