فغان درد میں بھی درد کی خلش ہی نہیں
دلوں میں آگ لگی ہے مگر تپش ہی نہیں
کہاں سے لائیں وہ سوز و گداز دل والے
کہ دلبری کا وہ آہنگ وہ روش ہی نہیں
حقیقتوں کے بھی تیور بدل تو سکتے ہیں
ہماری بزم میں خوابوں کی وہ خلش ہی نہیں
دماغ کیوں نہ ہو ساحل پہ سونے والوں کا
کبھی کبھار جو طوفاں کی سرزنش ہی نہیں
لبھائے گا اسے کیا چاند کا خنک جادو
جسے نصیب کڑی دھوپ کی تپش ہی نہیں
زمانہ قصۂ دار و رسن کو بھول نہ جائے
کسی کے حلقۂ گیسو میں وہ کشش ہی نہیں
یہ رنگ و بو کے طلسمات کس لیے ہیں سرورؔ
بہار کیا ہے جنوں کی جو پرورش ہی نہیں
غزل
فغان درد میں بھی درد کی خلش ہی نہیں
آل احمد سرور