فضا میں زلف کے جادو اگر بکھر جاتے
ہوا کے ساتھ بہت لوگ در بدر جاتے
بھلا ہوا کہ ہوئی جنس غم کی ارزانی
ہم اپنے داغ دکھانے نگر نگر جاتے
نہ جلتا کوئی چراغ صدا تو سب سر شام
لپٹ کے اپنے گھروں کے ستوں سے مر جاتے
اک ایسا لمحۂ شام خزاں بھی گزرا ہے
مجھے جو دیکھتے اس لمحہ تم تو ڈر جاتے
ہمیں نہ روک رواں ہیں مثال پارۂ ابر
ہمارے بس میں جو ہوتا تو ہم ٹھہر جاتے
مصورؔ آ کے نہ ٹھہرا کوئی بھی خوابوں میں
اداس راتوں کی آنکھوں میں رنگ بھر جاتے
غزل
فضا میں زلف کے جادو اگر بکھر جاتے
مصور سبزواری