فضا میں کیف فشاں پھر سحاب ہے ساقی
پھر اپنے رنگ پہ دور شباب ہے ساقی
یہ تلخ یادیں کم از کم بھلا تو دیتی ہے
شراب کچھ بھی ہو آخر شراب ہے ساقی
جو اپنی ہستی کی مستی مٹا کے آتا ہے
ترے حضور وہی باریاب ہے ساقی
غم فراق غم زندگی غم دنیا
شراب سارے غموں کا جواب ہے ساقی
تری نگاہوں سے میخانے جام بھرتے ہیں
تری نگاہوں کا کوئی جواب ہے ساقی
بقول چرخؔ یہاں مستیاں ابھرتی ہیں
یہ مے کدہ تو جہان شباب ہے ساقی

غزل
فضا میں کیف فشاں پھر سحاب ہے ساقی
چرخ چنیوٹی