فضائے ذہن کی جلتی ہوا بدلنے تک
میں بجھ نہ جاؤں لحاف انا بدلنے تک
چراغ جسم میں اس بار بجھ نہ جاؤں میں
ہوائے خیمئہ شب کی ردا بدلنے تک
پھر آج کوفے سے ہجرت بہت ضروری ہے
پلٹ کے آئیں گے آب و ہوا بدلنے تک
عجیب لوگ ہیں دنیا تری ہوس کے لئے
تلے ہوئے ہیں خود اپنا خدا بدلنے تک
کشید کرتے ہیں زنداں کی وادیوں سے امید
قفس بدلنے ہیں زنجیر پا بدلنے تک
اصول کانپ رہے تھے بدن کی بھٹی میں
قناعتوں کی مکمل فضا بدلنے تک
مرے لہو کا نمک چکھ لیا ہے اس نے بھی
وہ خوش رہے گا بہت ذائقہ بدلنے تک
سفید برف پہ ناچی بہار جی بھر کے
نظام قدرت کہنہ کی جا بدلنے تک

غزل
فضائے ذہن کی جلتی ہوا بدلنے تک
سنجے مصرا شوق