فصل گل بھی ترس کے کاٹی ہے
عمر کانٹوں میں بس کے کاٹی ہے
میں نے رو کر گزار دی اے ابر
جیسے تو نے برس کے کاٹی ہے
ہو کے پابند الفت صیاد
زندگی بے قفس کے کاٹی ہے
سوز الفت میں زندگی میں نے
غیر کا منہ جھلس کے کاٹی ہے
زندگی بھر رہے حسینوں میں
عمر پھولوں میں بس کے کاٹی ہے
اس نے کس ناز سے مری گردن
کمر شوق کس کے کاٹی ہے
اس کی حسرت ہے دید کے قابل
جس نے مضطرؔ ترس کے کاٹی ہے
غزل
فصل گل بھی ترس کے کاٹی ہے
مضطر خیرآبادی