فسانہ اب کوئی انجام پانا چاہتا ہے
تعلق ٹوٹنے کو اک بہانہ چاہتا ہے
جہاں اک شخص بھی ملتا نہیں ہے چاہنے سے
وہاں یہ دل ہتھیلی پر زمانہ چاہتا ہے
مجھے سمجھا رہی ہے آنکھ کی تحریر اس کی
وہ آدھے راستے سے لوٹ جانا چاہتا ہے
یہ لازم ہے کہ آنکھیں دان کر دے عشق کو وہ
جو اپنے خواب کی تعبیر پانا چاہتا ہے
بہت اکتا گیا ہے بے سکونی سے وہ اپنی
سمندر جھیل کے نزدیک آنا چاہتا ہے
وہ مجھ کو آزماتا ہی رہا ہے زندگی بھر
مگر یہ دل اب اس کو آزمانا چاہتا ہے
اسے بھی زندگی کرنی پڑے گی میرؔ جیسی
سخن سے گر کوئی رشتہ نبھانا چاہتا ہے
غزل
فسانہ اب کوئی انجام پانا چاہتا ہے
حمیرا راحتؔ