فرط الم سے آہ کئے جا رہا ہوں میں
اے عشق کیا گناہ کیے جا رہا ہوں میں
مقبول ہوں گے دہر میں داغ جگر مرے
ان کو چراغ راہ کیے جا رہا ہوں میں
رنج و الم کا لطف اٹھانے کے واسطے
راحت سے بھی نباہ کیے جا رہا ہوں میں
گلزار کامرانی و دنیائے آرزو
اعمال سے تباہ کیے جا رہا ہوں میں
مجھ کو عطا ہوا تھا دل آئنہ جمال
صد حیف اسے سیاہ کیے جا رہا ہوں میں
غم کہہ رہا ہے کون ہے مجھے سے سوا عزیز
سب کے دلوں میں راہ کیے جا رہا ہوں میں
غزل
فرط الم سے آہ کئے جا رہا ہوں میں
جگدیش سہائے سکسینہ