فریاد کہ وہ شوخ ستم گار نہ آیا
مجھ قتل کوں لے ہاتھ میں تلوار نہ آیا
میں پنبہ نمن نرم کیا بستر تن کوں
وہ پیو قدم دھرنے کو یکبار نہ آیا
چھٹ آہ پچھے کون مرے درد کا احوال
مجھ دکھ کی خبر لینے وہ غم خوار نہ آیا
جانے ہے وفادار مجھے دل منے لیکن
دہشت سے رقیباں کی وہ ناچار نہ آیا
آرام گیا بھوک نہیں نیند گئی بھول
افسوس کہ وہ طالع بیدار نہ آیا
بلبل کی نمن آس ہے نت باس کی مجھ کوں
صد حیف مرے پاس وہ گلزار نہ آیا
بازار سخن گرم کیا اوس کی صفت سوں
مجھ شعر کا ہیہات خریدار نہ آیا
لکھ بار سہا باغ میں مالی کا تہورا
پر سیر کتیں وہ گل بے خار نہ آیا
اے مبتلاؔ یہ بات لکھا دل کے اوپر میں
اک روز مجھ آغوش میں وہ یار نہ آیا

غزل
فریاد کہ وہ شوخ ستم گار نہ آیا
عبید اللہ خاں مبتلا