EN हिंदी
فریب تھا عقل و آگہی کا کہ میری فکر و نظر کا دھوکا | شیح شیری
fareb tha aql-o-agahi ka ki meri fikr-o-nazar ka dhoka

غزل

فریب تھا عقل و آگہی کا کہ میری فکر و نظر کا دھوکا

سجاد باقر رضوی

;

فریب تھا عقل و آگہی کا کہ میری فکر و نظر کا دھوکا
جو آخر شب کی چاندنی پر ہوا تھا مجھ کو سحر کا دھوکا

میں باغبانوں کی سازشوں کو سیاستوں کو سمجھ چکا ہوں
خزاں کا کھا کر فریب پیہم اٹھا کے برق و شرر کا دھوکا

شعور پختہ کی خیر ہو جس نے زندگی کو بچا لیا ہے
تری نگاہ کرم نما نے دیا تو تھا عمر بھر کا دھوکا

دعاؤں کو ہاتھ اٹھا رہا ہوں یہ خود فریبی ملاحظہ ہو
فریب تسکین کا برا ہو میں کھا رہا ہوں اثر کا دھوکا

دکھائی دیتی ہے مسخ نیرؔ حسین صورت بھی زندگی کی
قصور ہے آئینے کا اس میں کہ ہے یہ آئینہ گر کا دھوکا