EN हिंदी
فریب عقل میں مجنون عشق آ نہ سکا | شیح شیری
fareb-e-aql mein majnun-e-ishq aa na saka

غزل

فریب عقل میں مجنون عشق آ نہ سکا

بسمل سعیدی

;

فریب عقل میں مجنون عشق آ نہ سکا
بھلا دیا اسے آنکھوں نے دل بھلا نہ سکا

فروغ حسن سے راتیں وہ جگمگا نہ سکا
حریم عشق میں جو شمع دل جلا نہ سکا

بھلا دیا ہو کبھی یاد کر کے ممکن ہے
مگر میں بھول کے تجھ کو کبھی بھلا نہ سکا

نہ دل ملا نہ ملیں دل کی لذتیں اس کو
جو تیرے درد محبت کو دل بنا نہ سکا

دیے جواب مری معصیت کے رحمت سے
ہم اس کو بھول گئے وہ ہمیں بھلا نہ سکا

مجھے جنون محبت نے اس جہاں میں رکھا
کہ جس جہاں میں کوئی انقلاب آ نہ سکا

گزر گیا ہے محبت میں اک وہ عالم بھی
کہ مدتوں مجھے تو خود بھی یاد آ نہ سکا

تجلیاں اسے اپنی نظر جب آنے لگیں
نگاہ عشق میں پھر حسن بھی سما نہ سکا

ادھر کرشمۂ حسن ان کی پاک دامانی
ادھر یہ حال کہ ایماں کوئی بچا نہ سکا

قیود عشق سے شاہد گزر گیا ہو کوئی
حدود حسن سے لیکن نکل کے جا نہ سکا

نہ بن گیا ہو ترا عشق اضطراب کہیں
تسلیوں سے تری اضطراب جا نہ سکا

گزر گئی تھی ترے ساتھ زندگی کچھ دن
پھر اس کے بعد مزہ زندگی کا آ نہ سکا

ہمیشہ دیر و حرم میں ہیں شورشیں جس سے
وہ انقلاب کبھی میکدے میں آ نہ سکا

تمام عمر کو جب ہو گئے تھے وہ میرے
تمام عمر کبھی پھر وہ وقت آ نہ سکا

عجیب چیز ہے ہستی کی نیستی بسملؔ
کہ جو یہاں سے گیا پھر کبھی وہ آ نہ سکا