فرار پا نہ سکا کوئی راستہ مجھ سے
ہزار بار مرا سامنا ہوا مجھ سے
درخت ہاتھ ہلاتے تھے رہنمائی کو
مسافروں نے تو کچھ بھی نہیں کہا مجھ سے
یہ بے ہنر بھی نہیں ساتھ بھی نہیں دیتے
نہ جانے ہے مرے ہاتھوں کو بیر کیا مجھ سے
میں لوٹنے کے تصور سے خوف کھاتا ہوں
لپٹ نہ جائیں کہیں میرے نقش پا مجھ سے
ہزار بار جنم بھی لیا تو کیا اشہرؔ
مرا وجود بچھڑتا چلا گیا مجھ سے
غزل
فرار پا نہ سکا کوئی راستہ مجھ سے
اقبال اشہر قریشی