فلک کے نہ ان ماہ پاروں کو دیکھو
جو مٹی میں ہیں ان ستاروں کو دیکھو
کبھی کارواں بھی نمودار ہوگا
نگاہیں جمائے غباروں کو دیکھو
نکل کر کبھی شہر سود و زیاں سے
محبت کے اجڑے دیاروں کو دیکھو
چمن میں یہ کس چال سے چل رہے ہو
نہ پھولوں کو دیکھو نہ خاروں کو دیکھو
زباں حسن کی معتبر کب ہوئی ہے
کنایوں کو سمجھو اشاروں کو دیکھو
مصلح قطاریں ادھر بھی ادھر بھی
ذرا امن کی راہ گزاروں کو دیکھو
چمن کی خزاں پر نہ آنسو بہاؤ
نظر ہے تو کل کی بہاروں کو دیکھو
نہ دیکھو درختوں کی دوری چمن میں
لپٹتی ہوئی شاخساروں کو دیکھو
ذرا جھانک کر غرفۂ میکدہ سے
ترستے لبوں کی قطاروں کو دیکھو
کسی کے ستم کو بھی سمجھتے توجہ
ارے ان تغافل کے ماروں کو دیکھو
وہ دور حیات جہاں آ گیا ہے
بھنور میں رہو اور کناروں کو دیکھو
بڑھو اور ہاتھوں کا اک پل بنا لو
کناروں سے کب تک سواروں کو دیکھو
بنائے بقا دھمکیوں پر فنا کی
نئے جگ کے پروردگاروں کو دیکھو
کبھی نام ملاؔ نہ آیا زباں تک
یہ دنیا ہے ملاؔ کے یاروں کو دیکھو
غزل
فلک کے نہ ان ماہ پاروں کو دیکھو
آنند نرائن ملا