EN हिंदी
فاصلوں کی برف پگھلے گی مجھے یہ ڈر نہ تھا | شیح شیری
faslon ki barf pighlegi mujhe ye Dar na tha

غزل

فاصلوں کی برف پگھلے گی مجھے یہ ڈر نہ تھا

مظفر ایرج

;

فاصلوں کی برف پگھلے گی مجھے یہ ڈر نہ تھا
اس سے پہلے لمس کا سورج مرے سر پر نہ تھا

دل کے دروازے پہ دستک دے رہا تھا کون تھا
اک ذرا سوچا کوئی چہرہ کوئی پیکر نہ تھا

آئنہ کی ضد تھی بانٹے جائیں چہروں کے نقوش
ورنہ میں بھی کانچ کی گڑیوں کا سوداگر نہ تھا

زرد ٹھٹھری دھوپ میں پہنے ہوئے عریاں بدن
میں نے پہچانا وہ دیوانہ نہ تھا خود سر نہ تھا

اس سے پہلے یا تو ایرجؔ نے کبھی دیکھا نہ چاند
یا کبھی اس طرح پہلے چاند شعلہ‌ گر نہ تھا