ایک تمہارے پیار کی خاطر جگ کے دکھ اپنائے تھے
ہم نے اپنے ایک دیپ سے کتنے دیپ جلائے تھے
صرف جوانی کے کچھ دن ہی عمر کا حاصل ہوتے ہیں
اور جوانی کے یہ دن بھی ہم کو راس نہ آئے تھے
حسن کو ہم نے امر کہا تھا پیار کو سچا جانا تھا
ایک جوانی کے کس بل پر سارے سچ جھٹلائے تھے
اس کے بنا جو عمر گزاری بے مصرف سی لگتی تھی
اس کی گلی میں عمر گنوا کر بھی ہم ہی پچھتائے تھے
بے مہری کی تہمت بھی ہے مہر و مروت والوں پر
اسی ہوا نے مرجھائے ہیں جس نے پھول کھلائے تھے
غرق بادۂ ناب ہوئے وہ چاند سے چہرے پھول سے جسم
تم نے جن کی یاد میں عشقیؔ جام کبھی ٹکرائے تھے
غزل
ایک تمہارے پیار کی خاطر جگ کے دکھ اپنائے تھے
شاہد عشقی