ایک تو دنیا کا کاروبار ہے
عشق کا اس پر الگ آزار ہے
کون اس جا صاحب کردار ہے
ہر کوئی بس غازیٔ گفتار ہے
صبح تک اٹھتی رہی آہ و فغاں
کون مجھ میں شام سے بیدار ہے
اہل دل آئے یہاں تاخیر سے
اب کہاں وہ گرمئ بازار ہے
شور میں ڈوبا ہوا ہے گھر تمام
اور سناٹا پس دیوار ہے
میں ہوا بے لطف اس کے قرب سے
وہ بھی میری شکل سے بیزار ہے
سارے دشمن ہو گئے زیر نگیں
خود سے اب وہ بر سر پیکار ہے
ہر قدم پر لڑکھڑاتا ہوں سلیمؔ
راستہ شاید بہت ہموار ہے

غزل
ایک تو دنیا کا کاروبار ہے
سلیم فراز