ایک تاریک خلا اس میں چمکتا ہوا میں
یہ کہاں آ گیا ہستی سے سرکتا ہوا میں
شعلۂ جاں سے فنا ہوتا ہوں قطرہ قطرہ
اپنی آنکھوں سے لہو بن کے ٹپکتا ہوا میں
آگہی نے مجھے بخشی ہے یہ نار خود سوز
اک جہنم کی طرح خود میں بھڑکتا ہوا میں
منتظر ہوں کہ کوئی آ کے مکمل کر دے
چاک پر گھومتا بل کھاتا درکتا ہوا میں
مجمع اہل حرم نقش بہ دیوار ادھر
اور ادھر شور مچاتا ہوا بکتا ہوا میں
میرے ہی دم سے ملی ساعت امکان اسے
وقت کے جسم میں دل بن کے دھڑکتا ہوا میں
بے نیازی سے مری آتے ہوئے تنگ یہ لوگ
اور لوگوں کی توجہ سے بدکتا ہوا میں
رات کی رات نکل جاتا ہوں خود سے باہر
اپنے خوابوں کے تعاقب میں ہمکتا ہوا میں
ایسی یکجائی کہ مٹ جائے تمیز من و تو
مجھ میں کھلتا ہوا تو تجھ میں مہکتا ہوا میں
اک تو وہ حسن جنوں خیز ہے عالم میں شہود
اور اک حسن جنوں خیز کو تکتا ہوا میں
ایک آواز پڑی تھی کہ کوئی سائل ہجر؟
آن کی آن میں پہنچا تھا لپکتا ہوا میں
ہے کشید سخن خاص ودیعت مجھ کو
گھومتا پھرتا ہوں یہ عطر چھڑکتا ہوا میں
راز حق فاش ہوا مجھ پہ بھی ہوتے ہوتے
خود تک آ ہی گیا عرفانؔ بھٹکتا ہوا میں
غزل
ایک تاریک خلا اس میں چمکتا ہوا میں
عرفان ستار