EN हिंदी
ایک رات آپ نے امید پہ کیا رکھا ہے | شیح شیری
ek raat aapne ummid pe kya rakkha hai

غزل

ایک رات آپ نے امید پہ کیا رکھا ہے

شاذ تمکنت

;

ایک رات آپ نے امید پہ کیا رکھا ہے
آج تک ہم نے چراغوں کو جلا رکھا ہے

سوسن و نسترن و سنبل و ریحان و گلاب
تیری یادوں کو گلستاں میں چھپا رکھا ہے

وجہ آوارگئ عشق فسردہ معلوم
نگہ ناز کو پردہ سا بنا رکھا ہے

درد دولت ہی سہی پہلوئے راحت ہی سہی
کچھ دنوں عشق نے بھی خود کو بچا رکھا ہے

لے اڑے اہل جنوں حسن کی اک ایک ادا
خلوت و بزم میں اب فرق ہی کیا رکھا ہے

ہائے خوشبو سے ترے درد کی نسبت نہ گئی
میں نے ہر پھول کو سینے سے لگا رکھا ہے

آج تو شکوۂ محرومیٔ دیدار نہیں
ہم نے کل کے لیے اس غم کو اٹھا رکھا ہے