ایک نشتر سا رگ جاں میں اترنے دینا
زندہ رہنا ہے تو زخموں کو نہ بھرنے دینا
اور کچھ دیر نہ اے تیز ہواؤ تھمنا
جتنے بوسیدہ ہیں صفحات بکھرنے دینا
تیری پہچان کی اک قوس الگ بن جائے
اپنے لہجے کو ذرا اور سنورنے دینا
چھو کے دیکھیں گے تو پھر ان سے بھی نفرت ہوگی
آسمانوں کو زمیں پر نہ اترنے دینا
میری بینائی کے سب دیپ بجھا کر جانا
سانحے سارے مری جان گزرنے دینا
دیکھنا خواب زمینیں نہ ہوں بنجر قیومؔ
اپنا یہ درد یہ آشوب نہ مرنے دینا

غزل
ایک نشتر سا رگ جاں میں اترنے دینا
قیوم طاہر