ایک نازک دل کے اندر حشر برپا کر دیا
ہائے ہم نے کیوں یہ اظہار تمنا کر دیا
اب نہیں ہے خشک آنکھوں میں سوا وحشت کے کچھ
انتہائے غم نے کیا دریا کو صحرا کر دیا
ان کے در کو چھوڑ کر در در بھٹکتے ہم رہے
وحشت دل نے عجب انجام الٹا کر دیا
وسوسے امید کے دم سے جو تھے سب مٹ گئے
انتہائے درد نے غم کا مداوا کر دیا
لب پہ لکنت آنکھوں میں وحشت ہے چہرہ زرد ہے
اشتیاق حور نے زاہد کو کیسا کر دیا
گو نہیں امید اس سے تھی عنایت کی مگر
یہ تھا فرض عاشقی ہم نے تقاضا کر دیا
اک نزاع مستقل رہتی ہے عقل و شوق میں
ترک الفت نے تو اب دشوار جینا کر دیا
دل تو تھا اک قطرۂ خوں کیا حقیقت اس کی تھی
تیرے غم نے قلزم ذخار جیسا کر دیا
افترا و مکر سے شاید تجھے ملتا وقار
حق پرستی نے تجھے اے کیفؔ رسوا کر دیا

غزل
ایک نازک دل کے اندر حشر برپا کر دیا
سرسوتی سرن کیف