ایک میں ہوں اور لاکھ مسائل خدا گواہ
دست طلب ہے کاسۂ سائل خدا گواہ
آنکھیں کھلیں تو اور ہی منظر تھا روبرو
خود میں تھا اپنی راہ میں حائل خدا گواہ
یہ کائنات رقص میں ہے اک مرے لئے
پہنے ہوئے نجوم کی پائل خدا گواہ
دل میں محبتیں ہیں تو آنکھوں میں حیرتیں
میرے فقط یہی ہیں وسائل خدا گواہ
منصف تری طرف سہی پر خون بے گناہ
دے گا ترے خلاف دلائل خدا گواہ
دن رات اک جنون تلاش معاش ہے
اب کوئی منحرف ہے نہ قائل خدا گواہ

غزل
ایک میں ہوں اور لاکھ مسائل خدا گواہ
گلزار وفا چودھری