ایک بجھاؤ ایک جلاؤ خواب کا کیا ہے
آنکھوں میں رکھ کر سو جاؤ خواب کا کیا ہے
پاؤں تلے ہے روند کے گزرو کچل کے دیکھو
پیچھے جاؤ آگے آؤ خواب کا کیا ہے
شیلف پہ الٹا کر کے رکھ دو اور بسرا دو
گل دانوں میں پھول سجاؤ خواب کا کیا ہے
خواب کا کیا ہے رات کے نقش و نگار بناؤ
رات کے نقش و نگار بناؤ خواب کا کیا ہے
نیند ملی ہے گڑ سے میٹھی شہد سے شیریں
گاؤ ناچو ناچو گاؤ خواب کا کیا ہے
لا یعنی ہے سب لا یعنی یعنی یعنی
اور کہانی لکھ کر لاؤ خواب کا کیا ہے
ایک کباڑی گلیوں آواز لگائے
راکھ خریدو آگ کے بھاؤ خواب کا کیا ہے
غزل
ایک بجھاؤ ایک جلاؤ خواب کا کیا ہے
دانیال طریر