ایک بھٹکے ہوئے لشکر کے سوا کچھ بھی نہیں
زندگانی مری ٹھوکر کے سوا کچھ بھی نہیں
آپ دامن کو ستاروں سے سجائے رکھئے
میری قسمت میں تو پتھر کے سوا کچھ بھی نہیں
تیرا دامن تو چھڑا لے گئے دنیا والے
اب مرے ہاتھ میں ساغر کے سوا کچھ بھی نہیں
میری ٹوٹی ہوئی کشتی کا خدا حافظ ہے
دور تک گہرے سمندر کے سوا کچھ بھی نہیں
لوگ بھوپال کی تعریف کیا کرتے ہیں
اس نگر میں تو ترے گھر کے سوا کچھ بھی نہیں
غزل
ایک بھٹکے ہوئے لشکر کے سوا کچھ بھی نہیں
کاملؔ بہزادی