احساس تو مجھی پہ کر رہی ہے
چھوکر جو ہوا گزر رہی ہے
جس نے مجھے شاخ پر نہ چاہا
خوشبو مری اس کے گھر رہی ہے
بے سمتیٔ اشک کی ندامت
اس بار بھی ہم سفر رہی ہے
ٹھہرا ہے وہ جب سے رہ گزر میں
مٹی مری رقص کر رہی ہے
چپکے سے گھڑی گھڑی مسافرت کی
دہلیز پہ پاؤں دھر رہی ہے
تارے بھی نظر نہ آئیں گھر میں
آنکھ ایسی گھڑی سے ڈر رہی ہے
ٹوٹا ہوا عکس لے کے لڑکی
آئینے میں پھر سنور رہی ہے
غزل
احساس تو مجھی پہ کر رہی ہے
شاہدہ حسن