احساس بے طلب کا ہی الزام دو ہمیں
رسوائیوں کی بھیڑ میں انعام دو ہمیں
خودداریوں کی دھوپ میں آرام دو ہمیں
سوغات میں ہی گردش ایام دو ہمیں
احساس لمس جسم کی اس بھیڑ میں کہاں
کالی رتیں گناہ کا پیغام دو ہمیں
گم صم حصار ربط میں ہے لمحۂ عذاب
خواہش کا کرب فطرت بد نام دو ہمیں
بے زاریوں کو دشت نفس میں سمیٹ کر
درد آشنا جنون کے احکام دو ہمیں
دشت سراب سنگ ہے ماضی کا اضطراب
گر ہو سکے تو مستقل آرام دو ہمیں
سوغات میں ملی ہے مجھے رائیگاں شفق
کس نے کہا ہے اس کا بھی الزام دو ہمیں
یادوں کا اک ہجوم ہے اے رندؔ اور ہم
فرصت نہیں ہے ان دنوں آرام دو ہمیں
غزل
احساس بے طلب کا ہی الزام دو ہمیں
پی.پی سری واستو رند