احساس عاشقی نے بیگانہ کر دیا ہے
یوں بھی کسی نے اکثر دیوانہ کر دیا ہے
اب کیا امید رکھوں اے حسن یار تجھ سے
تو نے تو مسکرا کر دیوانہ کر دیا ہے
تجھ سے خدا ہی سمجھے تو نے کسی کو اے دل
مجھ سے بھی کچھ زیادہ دیوانہ کر دیا ہے
پھر اس کے دیکھنے کو آنکھیں ترس رہی ہیں
یادش بخیر جس نے دیوانہ کر دیا ہے
مجھ کو جنوں سے اپنے شکوہ جو ہے تو یہ ہے
میری محبتوں کو افسانہ کر دیا ہے
اے حسن روز افزوں عمرت دراز باد
دونوں جہاں سے مجھ کو بیگانہ کر دیا ہے
جب دل میں آ گیا ہے اک جنبش نظر نے
دیوانہ کہہ دیا دیوانہ کر دیا ہے
مجھ سے ہی پوچھتے ہیں یہ شوخیاں تو دیکھو
میرے جگرؔ کو کس نے دیوانہ کر دیا ہے
غزل
احساس عاشقی نے بیگانہ کر دیا ہے
جگر مراد آبادی