EN हिंदी
دور صحرا کی کڑی دھوپ میں چھاؤں جیسا | شیح شیری
dur sahra ki kaDi dhup mein chhanw jaisa

غزل

دور صحرا کی کڑی دھوپ میں چھاؤں جیسا

اویس الحسن خان

;

دور صحرا کی کڑی دھوپ میں چھاؤں جیسا
وہ تو لگتا تھا مجھے میری دعاؤں جیسا

اک ریاست تھی مرے پاس نوابوں جیسی
اب ترے شہر میں پھرتا ہوں گداؤں جیسا

اب اسے ڈھونڈھتا پھرتا ہوں بیابانوں میں
جو مرے پاس سے گزرا تھا ہواؤں جیسا

تو نہ تھا پاس تو روٹھی تھیں بہاریں مجھ سے
جیسے موسم ہو مرے ساتھ خزاؤں جیسا

رخ روشن سے نکلتی تھیں شعاعیں اویسؔ
اس کی زلفوں میں نظارہ تھا گھٹاؤں جیسا