EN हिंदी
دور دور صحرا ہے | شیح شیری
dur dur sahra hai

غزل

دور دور صحرا ہے

عشرت آفریں

;

دور دور صحرا ہے
اور دل اکیلا ہے

لفظ لفظ پتھر ہیں
زخم زخم رستا ہے

کوہ جاں اٹھائے ہوں
بوجھ میرا اپنا ہے

زرد زرد ہیں کلیاں
اور باغ مہکا ہے

دن کو مت کہو قصے
کوئی راہ بھولا ہے

میں کہ عشق پیچاں ہوں
تو شکستہ چھجا ہے

کیوں خموش ہے سبزہ
زہر پی کے سویا ہے

مدرسے کی اینٹوں پر
سب کچھ اب بھی لکھا ہے