دور دور صحرا ہے
اور دل اکیلا ہے
لفظ لفظ پتھر ہیں
زخم زخم رستا ہے
کوہ جاں اٹھائے ہوں
بوجھ میرا اپنا ہے
زرد زرد ہیں کلیاں
اور باغ مہکا ہے
دن کو مت کہو قصے
کوئی راہ بھولا ہے
میں کہ عشق پیچاں ہوں
تو شکستہ چھجا ہے
کیوں خموش ہے سبزہ
زہر پی کے سویا ہے
مدرسے کی اینٹوں پر
سب کچھ اب بھی لکھا ہے

غزل
دور دور صحرا ہے
عشرت آفریں