EN हिंदी
دور بھی جاتے ہوئے پاس بھی آتے ہوئے ہم | شیح شیری
dur bhi jate hue pas bhi aate hue hum

غزل

دور بھی جاتے ہوئے پاس بھی آتے ہوئے ہم

ضیا ضمیر

;

دور بھی جاتے ہوئے پاس بھی آتے ہوئے ہم
بھولتے بھولتے کچھ یاد دلاتے ہوئے ہم

نیند کا اس کو نشہ ہم کو جگانے کی ہوس
خواب میں آتے ہوئے نیند چراتے ہوئے ہم

پہلے روتے ہوئے اپنی ہی نگہبانی میں
اور بے ساختہ پھر خود کو ہنساتے ہوئے ہم

پچھلی شب پونچھتے آنکھوں سے پرانے سبھی خواب
اگلی شب خوابوں کا انبار لگاتے ہوئے ہم

چارہ گر بنتے ہوئے اپنی ہی ویرانی میں
پہلی بارش میں اکیلے ہی نہاتے ہوئے ہم

خون ارمانوں کا کرتے ہوئے خاموشی سے
اور پھر خون کو آنکھوں میں چھپاتے ہوئے ہم

اپنی جھولی میں کسی جیت کا نشہ سا لئے
اس کے کوچے سے ضیاؔ ہار کے جاتے ہوئے ہیں ہم