دشمن کی ملامت بلا ہے
یہ موم کا سانپ کاٹتا ہے
وسواس حساب حشر کیا ہے
گمناموں کو کون پوچھتا ہے
عالم مشتاق دید کا ہے
وہ بت نہ دکھائے منہ خدا ہے
وہ سیم بدن مگر خفا ہے
سونا جو حرام ہو گیا ہے
سر تا پا ہوں برنگ تصویر
کیا ضعف کا رنگ جم گیا ہے
قشقہ کھنچا ہے ابروؤں میں
دو نیمچے ایک پر تلا ہے
محفوظ افتادگی نے رکھا
تعویذ میں نقش بوریا ہے
گردش سے ملی مجھے سعادت
ہر آبلہ بیضۂ ہما ہے
جھڑتے ہیں پھول منہ سے اے گل
باتوں کا جھاڑ موتیا ہے
غزل
دشمن کی ملامت بلا ہے
منیرؔ شکوہ آبادی