EN हिंदी
دشمن جاں ہے تشنۂ خوں ہے | شیح شیری
dushman-e-jaan hai tishna-e-KHun hai

غزل

دشمن جاں ہے تشنۂ خوں ہے

آبرو شاہ مبارک

;

دشمن جاں ہے تشنۂ خوں ہے
شوخ ہے بانک ہے نکت بھوں ہے

تجھ کوں لیلیٰ بھی دیکھ مجنوں ہے
دل رباؤں کا دل ربا توں ہے

دل کے چھلنے کوں یہ لٹک چلنا
سحر ہے ٹوٹکا ہے افسوں ہے

خال مشکیں ہے لال لب ہا پر
یا مے سرخ بیچ افیوں ہے

آن ہے درد کے ضعیفاں پر
آہ دل کی الف ہے قد نوں ہے

درگزر کر رقیب سیں اے دل
بے حیا ہے رجالا ہے دوں ہے

درد سر کا علاج کیوں نہ کرے
یار کا رنگ صندلی گوں ہے

شیخ خرقے میں جب مراقب ہو
گربہ مسکین ہے مری جوں ہے

گر وفادار کش نہیں وہ شوخ
آبروؔ ساتھ دشمنی کیوں ہے