دشمن بھی اپنے دوست سے یا رب جدا نہ ہو
نہ آشنا کو بھی الم آشنا نہ ہو
صد چاک ہو وہ دل کہ جو درد آشنا نہ ہو
پھوٹے وہ آنکھ جس سے کہ آنسو گرا نہ ہو
وہ صید ہوں کہ پر بھی ہوں اور اڑ سکا نہ ہو
یا رب مجھے کہیں پر ماہی ملا نہ ہو
بعد از فنا زمیں سے نہ اٹھا مرا غبار
ایسا کوئی کسی کی نظر سے گرا نہ ہو
کرتی ہے اب تلک جو لگاوٹ تمہاری تیغ
تسمہ کوئی گلے میں لگا رہ گیا نہ ہو
مر کر بھی اس گلی میں نہ ہم پہنچیں یا نصیب
خاک اپنی جب اڑے تو ادھر کی ہوا نہ ہو
بے یار ذوق کب ہے شراب و کباب سے
پروا نہیں ہے اب مجھے ساقی ہو یا نہ ہو
خون جگر پیا نہ ہو جس نے وہ مے پیے
کھائے وہی کباب کہ جو دل جلا نہ ہو
ہم خاک میں ملے تو ملے غم مگر یہ ہے
دل میں ترے غبار کہیں آ گیا نہ ہو
رسوائی کا بھی چاہئے وحشت میں کچھ خیال
دامن جو چاک ہو تو گریباں پھٹا نہ ہو
بے جرم و بے گناہ نہ عاشق کو قتل کر
کعبہ تری گلی ہی کہیں کربلا نہ ہو
کھینچی تھی تیغ پر نہ نزاکت سے کھنچ سکی
قاتل کا کیا قصور جو میری قضا نہ ہو
مرہم جو سبز تم نے لگایا تو فائدہ
بے آب تیغ زخم ہمارا ہرا نہ ہو
بانگ درا تو ہوتی نہیں ایسی دل خراش
ہم راہ قافلہ دل نالاں مرا نہ ہو
جو ہو سکیں وہ مجھ سے کرو بے وفائیاں
تا پھر کسی کو تم سے امید وفا نہ ہو
جز کہربا اٹھائی کسی نے نہ میری لاش
کاہیدہ اس قدر کوئی یا رب ہوا نہ ہو
حسرت سے کیوں تڑپتے ہیں صیاد اسیر دام
ہاتھوں میں تیرے طائر رنگ حنا نہ ہو
کھا کھا کے پان پیک جو پھینکی مزار پر
اس کے شہید لب کا یہی خوں بہا نہ ہو
اس درجہ کیوں ہے چرخ جفا جو کو اضطراب
دل کو مرے قرار کہیں آ گیا نہ ہو
خاموش اپنے در پہ مجھے دیکھ کر وہ شوخ
کہتا ہے یہ فقیر کہیں بے نوا نہ ہو
ہے درمیاں میں تفرقہ پرواز گفتگو
خاموش ہو تو لب سے کبھی لب جدا نہ ہو
بہر جواب خط میں جگہ چھوڑ دی تھی کچھ
قاصد نے اس پہ خط غلامی لکھا نہ ہو
پھر روح کو ہے جسم میں آنے کا اشتیاق
اس نے مرے جنازے کو کاندھا دیا نہ ہو
بے چین ہو نہ جائیں سب آسودگان خاک
وہ چال چل کہ جس سے قیامت بپا نہ ہو
تو مجھ سیاہ بخت کی جانب نگاہ کر
دیکھوں تو کیونکر آنکھ تری سرمہ سا نہ ہو
تاریک ہو گیا ہے نظر میں جہاں وزیرؔ
آنکھوں میں اس کی غیر نے سرمہ دیا نہ ہو
غزل
دشمن بھی اپنے دوست سے یا رب جدا نہ ہو
خواجہ محمد وزیر لکھنوی