درد پی لیتے ہیں اور داغ پچا جاتے ہیں
یاں بلانوش ہیں جو آئے چڑھا جاتے ہیں
دیکھ کر تم کو کہیں دور گئے ہم لیکن
ٹک ٹھہر جاؤ تو پھر آپ میں آ جاتے ہیں
جب تلک پاؤں میں چلنے کی ہے طاقت باقی
حال دل آ کے کبھو تجھ کو دکھا جاتے ہیں
عشق کا کیونکہ بتاں سے کرے اخفا کوئی
ڈھب سے نظروں میں یہ کافر وہیں پا جاتے ہیں
طرح سوزن کی جو ہیں رشتۂ الفت میں پھنسے
جس طرف سیر کریں رو بہ قضا جاتے ہیں
کون ہو غنچہ صفت اپنے صبا کا مرہون
جیسے تنگ آئے تھے ویسے ہی خفا جاتے ہیں
رہیو ہشیار تو لپ جھپ سے بتاں کی قائمؔ
بات کی بات میں واں دل کو اڑا جاتے ہیں
غزل
درد پی لیتے ہیں اور داغ پچا جاتے ہیں
قائم چاندپوری