دنیا سے داغ زلف سیہ فام لے گیا
میں گور میں چراغ سر شام لے گیا
کی ترک میں نے شیخ و برہمن کی پیروی
دیر و حرم میں مجھ کو ترا نام لے گیا
دوزخ میں جل گیا کبھی جنت میں خوش رہا
مر کر بھی ساتھ گردش ایام لے گیا
میں جستجوئے کفر میں پہونچا خدا کے پاس
کعبہ تک ان بتوں کا مجھے نام لے گیا
پہنا کفن تو کوچۂ قاتل میں پائی راہ
کعبہ میں مجھ کو جامۂ احرام لے گیا
نفرت ہوئی دورنگئ لیل و نہار سے
میں صبح و شام اس کو لب بام لے گیا
کچھ لطف عشق کا نہ ملا جیتے جی منیرؔ
ناحق کا رنج مفت کا الزام لے گیا
غزل
دنیا سے داغ زلف سیہ فام لے گیا
منیرؔ شکوہ آبادی