EN हिंदी
دنیا میں قصر و ایواں بے فائدہ بنایا | شیح شیری
duniya mein qasr-o-aiwan be-faeda banaya

غزل

دنیا میں قصر و ایواں بے فائدہ بنایا

شاد لکھنوی

;

دنیا میں قصر و ایواں بے فائدہ بنایا
عقبیٰ انہیں بنائی منعم تو کیا بنایا

جو عنصری گھروندا پہ چوکھٹا بنایا
اک دم میں وہ بشر کا بگڑا بنا بنایا

زلفوں میں طائر جاں جس نے پھنسا بنایا
تن کو قفس رگوں کو اک جال سا بنایا

سوز غم و الم سے بہہ جاؤں شمع‌ ساں جو
اے شعلہ رو مجھے بھی کیا موم کا بنایا

نقشے پہ کھنچ سکا جب مانی سے دل جلوں کا
جس جا مکان دل تھا آتش کدہ بنایا

بحر جہاں میں جس دم پہنچی نمود انساں
پانی نے سر اٹھا کے اک بلبلا بنایا

پہنا کفن اتارا ہستی کے پیرہن کو
پھینکا لباس کہنہ جامہ نیا بنایا

خالق نے جب کہا خلق ابرو کے بسملوں کا
گردن مری بنائی خنجر ترا بنایا

چل کر صبا کی صورت خنداں کیا گلوں کو
غنچوں کا منہ بگاڑا جب منہ ذرا بنایا

شیشہ گری پہ نازاں بیکار شیشہ‌ گر ہیں
کوئی بھی دل کسی کا ٹوٹا ہوا بنایا

آہوں کے کودکوں نے چھلنی کیا یہاں تک
سقف فلک کو چھتا زنبور کا بنایا

شان خدا عیاں ہے ہر بت سے میکدے میں
کعبے میں تم نے جا کر اے شادؔ کیا بنایا