دنیا کو جب نزدیکی سے دیکھا ہے
تب سمجھا یہ سب کچھ کھیل تماشہ ہے
ہاتھوں کی دو چار لکیریں پڑھ کر وہ
مجھ سے بولا آگے سب کچھ اچھا ہے
اس سے بس اک بار ملا پر حیراں ہوں
دل میں تب سے گھر کر کے وہ بیٹھا ہے
کاغذ پر دل کی تصویر بنائی جب
اس نے پوچھا یہ کس شے کا نقشہ ہے
سوچ رہا ہوں میں اس کا سودا کر دوں
اس کی یادوں کا جو دل میں ملبہ ہے
دونوں پہلو میں ہی ہار چھپی اس میں
میرے ہاتھوں میں اب یہ جو سکہ ہے
اس خاطر میں روز مشقت کرتا ہوں
آسانی سے کیا حاصل ہو پاتا ہے
جب قدرت نے تھوڑا آج نوازا تو
سارے مجھ سے پوچھے ہیں تو کیسا ہے
میتؔ یہاں اپنے تو نام کے اپنے ہیں
انجانوں سے رشتہ دل کا گہرا ہے
غزل
دنیا کو جب نزدیکی سے دیکھا ہے
امت شرما میت