دنیا کا نہ عقبیٰ کا کوئی غم نہیں سہتے
جو آپ کے ہو جاتے ہیں اپنے نہیں رہتے
رو لے ابھی کچھ اور غنیمت ہے یہ رونا
بن جاتے ہیں وہ زہر جو آنسو نہیں بہتے
اب کوئی نئی چال چل اے گردش دنیا
ہم روز کے فتنے کو قیامت نہیں کہتے
سب پوچھو گزرتی ہے جو ہم پر وہ نہ پوچھو
دل روتا ہے اور آنکھ سے آنسو نہیں بہتے
آگ اور دھواں اور ہوس اور ہے عشق اور
ہر حوصلۂ دل کو محبت نہیں کہتے
اس دور میں کروٹ نہ بدل جذبۂ احساس
ہیں چین سے جو ہوش میں اپنے نہیں رہتے
حیران ہیں اب جائیں کہاں ڈھونڈنے تم کو
آئینۂ ادراک میں بھی تم نہیں رہتے
دیدار کے طالب تو سراجؔ اب بھی ہیں لیکن
جلنا تو بڑا کام ہے آنچ اک نہیں سہتے
غزل
دنیا کا نہ عقبیٰ کا کوئی غم نہیں سہتے
سراج لکھنوی