دنیا داری سے ناواقف کیسا پاگل لڑکا تھا
جب رونے کا موقع ہوتا تب بھی ہنستا رہتا تھا
ہم سے کیسی بھول ہوئی تھی ہم نے کیا کیا سوچا تھا
بالکل موم سا پگھلا وہ تو جو کندن سا لگتا تھا
شک کے سائے پھیل رہے ہیں بستی والے حیراں ہیں
اس نے دریا پار کیا ہے تو کیا مٹکا پکا تھا
ذہن میں دھندلا دھندلا سا اک نقش ابھرتا جاتا ہے
ہم تم کو پہچان رہے ہیں ہم نے تم کو دیکھا تھا
پہلے کچھ سوچا ہی نہیں تھا لیکن اب اس سوچ میں ہیں
مل کر بھی کیا پایا تم سے ملتے نہیں تو اچھا تھا
وہ جو اک امید تھی تم سے خیر اسے اب چھوڑو تم
تم پر کیا الزام دھریں ہم یوں بھی یہ تو ہونا تھا
غزل
دنیا داری سے ناواقف کیسا پاگل لڑکا تھا
رزاق ارشد