EN हिंदी
دکھ سے غیروں کے پگھلتا کون ہے | شیح شیری
dukh se ghairon ke pighalta kaun hai

غزل

دکھ سے غیروں کے پگھلتا کون ہے

راجندر کلکل

;

دکھ سے غیروں کے پگھلتا کون ہے
خود سے باہر اب نکلتا کون ہے

برف سی تاثیر سب کی ہو گئی
ظلم سہہ کر اب ابلتا کون ہے

غیر کو ہی سب بدلنے میں رہے
اپنی فطرت کو بدلتا کون ہے

چھوڑ دو اس کو اسی کے حال پر
عشق میں پڑ کر سنبھلتا کون ہے

زندگی بھر جو نہ کھائے ٹھوکریں
کھول کر آنکھیں یوں چلتا کون ہے

دور مجھ سے ہو گیا بچپن مگر
مجھ میں بچے سا مچلتا کون ہے

خواہشوں پر قید کلکلؔ کیوں لگے
عمر کے سانچے میں ڈھلتا کون ہے